Kisi bhi insaan ki, koi bhi achchi koshish, kabhi bhi zaya nahi hoti

 

کسی بھی انسان کی، کوئی بھی اچھی کوشش، کبھی بھی ضائع نہیں ہوتی

مولانا شاہد معین قاسمی

ستائیسویں پارے کے شروع میں اللہ تعالی نے حضر ت لوط ، موسی ، ہود ،صالح کا تذکر فرماتے ہوئے ،زمین کی پیدائش ،ہر چیز کے جوڑے کا بنانااورانسان وجنات کا صرف اللہ تعالی کی عبادت کے لئے پید اکیاجانابیان کیا ہے اور یہ فرمایا کہ میں تم سے رزق کموانا نہیں چاہتا مجھے کھانے پینے کی ضرورت نہیںہے بل کہ میں نے توخو دہی کھلانے کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔سورہ ٔ طور میں جنت کی نعمتوں اور جہنم کے عذاب کی ایک قسم کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور اللہ کے نبی ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ اپنے جھٹلانے والوں کی باتوں پہ صبر کریں ۔
سورہ ٔ نجم میں معراج کے موقع پہ آ پ ﷺ کی اللہ تعالی یاحضر ت جبرئیل سے ملاقات کی تفصیلات کی روشنی میں ایک طر ف تو نبی ﷺ کے بارے میں یہ بیان فریا گیا کہ یہ بر حق نبی ہیں نہ تو قرآن کریم کے حاصل کرنے میں ان سے کوئی دھوکہ یا کوتاہی ہوتی ہے اور نہ ہی قرآن کو لوگوں تک پہنچانے میں کوئی خیانت اور بے ایمانی ہوتی ہے اور ساتھ ہی جن کے واسطے سے انہیں قرآن ملتا ہے وہ بھی بہت ہی مضبوط ہیں تو دوسری طر ف نبی ﷺ کو یہ نصیحت فرمائی گئی ہے کہ خود اعتمادی اور صبر کے ساتھ دین پر عمل کرتے اور اسے پھیلا تے رہیں، بتوں ،بت پرستی اور بت پرستوں کی مذمت کی گئی ہے اور یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے یہاں کسی کے ذمے کا عمل دوسرے سے قبول نہیں کیا جائے گا ،کوئی کسی کو کرایا دیکراپنی طر ف سے فرض وواجب نماز نہیں پڑھوا سکتا ،کرائے پہ روزے رکھو ائے جاسکتے ہیں اور نہ خو د ادا کرنے کی طاقت ہو تے ہو ئے کرایہ دیکر فرض حج کر وایا جاسکتا ہے جب تک ایک انسان ایمان حاصل کرنے کے لئے خود اپنی کوشش پیش نہ کرے اسے ایمان نہیں مل سکتا ۔اسی طرح دیناوی نعمتوں میں بھی اللہ کے یہاں اسی ضابطے پہ عمل ہوتاہے جب تک ایک انسان کسی بلندی کو حاصل کرنے کے لئے خو د نہ کوشش کرلے اس وقت تک اسے وہ بلندی حاصل نہیں ہوپاتی ساتھ ہی دوسر ا پہلو جو قرآن میں بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی انسان کی کوئی بھی اچھی کوشش کبھی بھی ضائع نہیں ہوتی بلکہ اس کی ہرکوشش کا اللہ تعالی کو ئی نہ کو ئی بدلہ ضرور دیتے ہیں چاہے اس کی شکل جو بھی ہو۔ ( اس آیت سے ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو ترقی کرتا دیکھے تو اسے اِس سے حسد کرنے کی ضرورت نہیںہے بل کہ یہ سمجھنا چاہئے کہ جس میدان میں وہ ترقی کر کے مجھ سے آگے بڑھ رہا ہے وہ ا س لئے نہیں کہ اس نے کوشش کی ہے بل کہ اس لئے کہ میں نے کوشش نہیں کی اور خود ہی کوشس کرنا شروع کردیناچاہئے اگر وہ بھی کوشش کرنا شروع کردے تو وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے گا ۔یہ ضابطہ اجتماعی اور انفرادی دونوں ترقی کا ہوگا۔اسی طرح کچھ لوگوں کی عادت یہ ہوجاتی ہے کہ بہت سارے میدانوں میں کچھ کئے بغیر دوسرے لوگوں کی کوششوں اور ان کی کامیابیوں کا سہرا اپنے سر باندھتے رہتے ہیں قرآن کے مطابق ایسے لو گ ہمیشہ ناکام ہی رہیںگے ایک وقت ایسا آ ہی جاتاہے جس میں ان کی قلعی کھل جاتی ہے اور اخیر میں بے کار مان لئے جاتے ہیں۔ساتھ ہی محنت ومشقت کرنے والے لوگوں کواس بات سے کبھی بھی غمگین یا ما یو س نہیں ہونا چاہئے کہ اس کی محنتوں کا فائدہ کچھ دوسرے لوگ اٹھا لیتے ہیں کا م وہ کرتے ہیں اور نا م کسی اور کا ہوتار ہتاہے اس لئے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہی وہ دن بھی آجائے گا جس میں ان کی محنتیں ظاہر ی اعتبار سے بھی ا نہی کی مانی جائیں گی اور ا ن کی کو ششوں کا فائدہ براہ ارست انہیںہی پہنچنے لگے گا ۔)
سورہ ٔ قمر کی شروع کی آیتوں میں اللہ تبارک وتعالی نے اپنے لاڈلے اور محبوب نبی ﷺ کے ایک معجزے کی طر ف اشارہ کیا ہے کہ جب کفار نے آپ ﷺ سے معجزے کا مطالبہ کیا تو آپ ﷺ نے چاند کی طر ف اشارہ کیا اور اس کے دو ٹکڑ ے ہوگئے جسے لوگو ں نے بھی دیکھ لیا۔ مفتی شفیع صاحب فرماتے ہیں اس معجزہ شق القمر کا ثبوت قرآن کریم کی اس آیت وانشق القمر میں بھی موجود ہے او ر احادیث ِصحیحہ جو صحابہ ٔ کرام ؓ کی ایک جماعت سے روایت کی گئی ہیں ان سے بھی جیسے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ،عبداللہ ابن عمرؓ،جُبَیر ابن مُطعمؓ، عبدا للہ ابن عباسؓ اور انس ابن مالکؓ وغیرہ اور حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ خود اپنا اس وقت موجود ہونا اور اس معجزے کا مشاہد ہ کرنا بھی بیان فرماتے ہیں اور امام طحاویؒ اور ابن کثیر ؒکے مطابق یہ احادیث متواتر ہیں اس لئے اس معجزہ ٔ نبوی کا ثبوت قطی دلائل سے ثابت ہے۔ واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی ﷺ مکہ مکرمہ کے مقام منی میں تشریف رکھتے تھے مشرکین مکہ نے آپ سے نبوت کی نشانی طلب کی یہ واقعہ ایک چاندنی رات کاہے حق تعالی نے یہ کھلا ہوا معجزہ دکھلادیا کہ چاند کے دوٹکڑے ہوکر ایک مشرق کی طرف اور دوسرا مغرب کی طرف چلا گیا اور دونوں ٹکڑوں کے درمیان پہاڑ حائل نظر آنے لگا آپ ﷺ نے وہاں پے موجود تمام لوگوں سے کہا کہ دیکھو اور گواہی دو جب سب لوگوں نے صاف طور پہ دیکھ لیا تو یہ دونوں ٹکڑے پھر آپس میں مل گئے اس کھلے ہوئے معجزہ کا انکار تو کسی آنکھوں والے سے ممکن نہ ہوسکتاتھا مگر مشرکین دیکھ کر بھی یہ کہنے لگے کہ محمد (ﷺ) پوری دنیا پہ تو جادو نہیں کرسکتے ملک کے ارد گرد سے آنے والے لوگوں کا انتظار کرووہ کیا کہتے ہیں(بیہقی اور ابوداؤد) طیالسی کی روایت حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے ہے کہ بعد میں ارد گرد سے آنے والے تمام مسافروں سے ان لوگوں نے تحقیق کی تو سب نے ایساہی چاندکے دو ٹکڑے دیکھنے کا اعتراف کیا۔
اس موقع سے چند آحادیث مبارکہ کا ترجمہ پیش کرنا بھی مناسب معلوم ہوتاہے:
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک کی روایت سے نقل کیا ہے کہ:اہل مکہ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ اپنی نبوت کے لئے کوئی نشانی دکھلائیں اللہ تعالی نے ان کو چاند کے دو ٹکڑے کرکے دکھادیئے یہاں تک کہ انہوں نے جبل حراء کو دونوں ٹکڑوں کے بیچ میں دیکھا۔
صحیح بخاری ،مسلم اور مسند احمد میںحضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے:رسول اللہ ﷺ کے مبارک زمانے میں چاند پھٹا اور اس کے دو ٹکڑے ہوگئے جسے سب نے صاف طور پہ دیکھ لیا اور آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا دیکھو اور گواہی دو!
ابن جریر نے حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓکی اس روایت کو اس طرح نقل کیا ہے:ہم منی میں آپ ﷺ کے ساتھ تھے اچانک چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے اورایک ٹکڑا پہاڑ کے پیچھے چلاگیاتو آپ ﷺ نے فرمایا گواہی دو!گواہی دو!
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کی ہی ایک روایت جسے ابوداؤد طیالسی نے نقل کی ہے اور بیہقی نے بھی:مکہ ٔ مکرمہ کے قیام کے زمانے میں چاند پھٹکر دو ٹکڑے ہوگیاکفار قریش کہنے لگے یہ جادو ہے ابن کبشہ (محمدﷺ )نے تم پے جادو کردیا ہے اس لئے تم انتظار کرو باہر سے آنے والے مسافروں کا اگر انہوں نے بھی چاند کے دو ٹکڑے دیکھے ہیں تو اِنہوں نے سچ کہا اور اگر باہر کے لوگوں نے ایسا نہیں دیکھا تو پھر تو یہ جادو ہی ہوگا پھر باہر سے آنے والے مسافروں سے تحقیق کی جو ہر طرف سے آئے تھے سب نے یہ اعتراف کیا کہ ہم نے بھی یہ دوٹکڑے دیکھے ہیں
حضرت مفتی شفیع صاحبؒ نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ ہندوستان کی مشہور ومستند تاریخ فرشتہ، میں اس کا ذکر بھی موجود ہے کہ ہندوستان میں مہاراجہ مالیبار نے یہ واقعہ بچشم خود دیکھا اور اپنے روزنامچے میں لکھوایا اور یہی واقعہ ان کے مسلمان ہونے کا سبب بھی بنا اور اوپر کی حدیث جو ابوداؤد طیالسی اور بیہقی نے نقل کی ہے اس میں یہ بات آچکی ہے کہ قریش مکہ نے باہر سے آنے والے لوگوں سے بھی تحقیق کی اور ان لوگوں نے اس واقعے کی تصدیق بھی کی۔
بہرحال !اس سورت میں مجمو عی اعتبار سے آخرت اور جنت وجہنم کا تذکر ہ کرتے ہوئے لوگوں کو ایمان کی دعوت دی گئی ہے اور قوم نوحؑ،ہودؑ،صالحؑ اور لوطؑ کے واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن کا بیان پچھلے پاروں میں آچکا ہے حضرت لوط کی قوم کے متعلق ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ جب فرشتے ان کے پاس خوبصورت نوجوان بچو ں کی شکل میں مہمان کے طورپہ آئے تو ان کی قوم نے ان سے یہ مطالبہ شروع کردیا کہ اِنہیں ہمارے حوالے کردیں ہم ان سے اپنی خواہش پوری کریںگے مفسرین ؒنے لکھا ہے کہ جب حضرت لوط ؑ نے اس کی اجازت نہیں دی تو یہ حضرت لوط ؑ کے گھر پہ چڑھ آئے اور جب حضرت ؑنے دروازہ بند کرلیا تو دروازہ توڑ کر یا اوپر سے چھلانگ لگا کر اندر آنے لگے حضرت لوط ؑ کو پریشانی ہوئی تو اس وقت فرشتوں نے اپنا راز ظاہر کردیا اور کہا فکر نہ کریں یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہم اللہ کے فرشتے انہیں عذاب کا مزہ چکھانے کے لئے ہی آئے ہیں پھر حضرت جبرئیل نے اپنے پر ان کی آنکھوں پر پھیردئیے جس سے یہ اندھے ہوگئے اس کے بعد صبح کو مسقل عذاب آیا۔(از :بیان القرآن عن الدر عن قتادۃ)ا ن قوموں کے تذکرے کے بعد نہ ماننے والوں سے یہ فرمایاگیا ہے کہ جب ان مضبوط اور طاقتور قومو ں کے نہ ماننے کی وجہ سے ہم نے اس دردناک طریقے سے انہیں ہلاک کردیا توتم کیا ہو اور ساتھ ہی چار بار ایک ہی بات کا اعادہ کیاگیا ہے کہ قرآن کریم اور اسلام کا سمجھنا بہت آسا ن ہے ۔ جس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوسکتا کہ قرآن کریم میں جتنے مضامین اور علوم بیان کئے گئے ہیں وہ تمام کے تما م دنیا کے ہر انسان کو سمجھ میں آجائیں گے چا ہے وہ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس سے استفادہ کے اصول کو پڑھکر ان میں مہارت حاصل کرے یا نہ کرے بل کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اس کو سمجھنے کے اصول میں مہارت حاصل کرے گا یا ماھر ین ِعلوم قرآن کی مدد سے اسے سمجھنے کی صحیح اورسچی کوشش کرے گا تو قرآن کریم ضرور سمجھ میں آئے گا اور اسے سمجھ کر عمل کرنے کے لئے ہی تو اتار اگیا ہے۔ اس کی مزید وضاحت یوں بھی ہوسکتی ہے کہ یہ کہا جائے کہ انجنیر یا ڈاکٹر بننا بہت آسان ہے اور آجکل تو بڑے بڑے ادارے کھل گئے ہیں جنہوں نے کافی تحقیقات کرلی ہیںانہوں نے دنیا کے سامنے اپنے بے شمار تجربات پیش کردئیے ہیںتو کیا اس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ دنیا کا ہر انسان انجنیر یا ڈاکٹر بن جائے گا اور وہ بھی اس طرح کہ کوئی انجنیر نگ یا ڈا کٹری پہ لکھی ہوئی کتابوں کا ذاتی مطالعہ ) (self-studyکرلے؟ہر گز نہیں !بل کہ مطلب یہ ہوگا کہ اگر کوئی انسان سب سے پہلے کے جی سے دسویں تک مشترکہ تعلیم حاصل کرے گا پھر اس کے نمبرات اگر اچھے ہوںگے تو پہلے ڈا کٹری یا انجنیرنگ کی ابتدائی کلاسوں میں داخل ہوگااور اس کے بعد ہر بار اگلے درجوں میں پڑھنے کے لئے اسے پہلے درجوں میں اچھے نمبرات حاصل کرنا ہوںگے اور ایک ماہر ڈا کٹر اور انجنیر بننے کے لیے تو نہ جانے کتنے پاپڑ( perseverance) بیلنا پڑتے ہیں اپنے ساتھیوں میں نمایاں امتیاز(Remarkable merit ) حاصل کرنا ہوتا ہے اور تمام تر سندیں حاصل کرنے کے بعد بھی کسی کہنہ مشق (Well-experienced)ڈاکٹر کی صحبت میں رہ کر عملی طور پہ اپنی صلاحتیوں کا اندازہ کرنا پڑتاہے اس سے پہلے کسی ماہر ڈاکٹر یا انجنیر بننے کا خواب کبھی بھی شرمندہ ٔ تعبیر (Materialize )نہیں ہوتا اور تقریبا یہی حال آج دنیا میں موجود ہر علم وفن کے کسی بھی شعبے کا ہے کسی بھی ایک علم میں موجود اس کے بے شمار قسموں میں سے کسی ایک میں بھی مہارت (mastery)حاصل کرنے کے لیے زندگی کا ایک معتدبہ حصہ (Considerable period)مطلوب ہوتاہے تو بھلا قرآن کریم کو سمجھنے اور اس میں مہارت حاصل کرنے کے لئے باضابطہ علوم کے حصول اور ان میں مہارت کی ضرورت کیوں نہیں پڑے گی؟؟ (الا ما شاء اللہ)
سورہ ٔ رحمن میںقیامت کے روز حساب وکتا ب اورانصاف کے ترازو کے قیام کا تذ کرفرماکر جنتیوں کو ملنے والی بے شمار چیزوں کابیان کیا گیا ہے اور ساتھ ہی جہنمیوں کے آگ میں تباہ ہوکر جلنے اور ان کی بہت سی دوسری سزاوؤں کا ذکر ہے۔
سورہ ٔ واقعہ کی شروع کی آیتوں میںقیامت کے پہلے پیش آنے والے ہولناک واقعات کا بیان ہے،جنت کے انعامات کا بہت تفصیل سے ذکرہے اور اسی طرح جہنم کے عذاب کا بھی۔ ساتھ ہی اللہ تعالی نے اپنی بہت سی قدرتوں کو سوال وجواب کے انداز میں بیان فرمایاہے اور سورت کے اخیر میں قر آن پا ک کا مقام ومرتبہ بیان کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ اسے پاکی اور مکمل طہارت کی حالت میں ہی چھوا جاسکتا ہے ۔سورہ ٔ حدید میں پہلے تو اللہ تعالی نے اپنی بڑائی اور قدرت کی چیزوں کا بیان فرمایا ہے ،پھر یہ بیان فرمایاکہ قیامت کے دن منافق لوگ مسلمانو ں کی روشنی اور نور سے استفادہ کرنے کے لئے یہ کہیں گے کہ ذرا رک جاؤ ہم تمہارے نور میں سے کچھ لے لیتے ہیں لیکن انہیں دھتکار دیا جائے گا وہ کہیں گے کہ ہم بھی تو آپ ہی کے ساتھ رہا کرتے تھے انہیں جواب ملے گا ہاں ضرور لیکن دھوکہ دیا کرتے تھے اور اسلام کا مذاق اڑایا کرتے تھے دل میںکچھ اور زبان پہ کچھ ہوتاتھا۔اور ساتھ ہی یہ بھی بیان کیاگیاہے کہ جو لو گ اللہ کے بندوں کی مدد کرتے ہیں اور ان پہ پیسے خرچ کرتے ہیں وہ گویا کو اللہ کوقرض دیتے ہیں جن کابدلہ اللہ انہیں ضرور دے گا جس سے صدقہ خیر ات اورمالی تعاون کی اہمیت بتلانا غرض ہے۔
��

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here