قرآن کریم امنِ عالم کا علَم بردار اور اس کا محافظ ہے نہ کہ اس کا قاتل
مولانا شاہد معین قاسمی
پچیسویں ویں پارے کے شروع میںیعنی سورہ ٔ حم سجدہ آیت: ۴۷ سے ۵۰؍ تک اللہ تعالی نے پہلی بات تویہ بیان فرمائی کہ قیامت کا علم صرف اللہ تعالی کو ہی ہے درختوں پہ پھلو ں کے آنے سے پہلے یہ کسی کو نہیں معلوم ہوتا کہ ان کے شگوفوں میں کیا ہے بل کہ اس کی بھی خبر صرف اور صرف اللہ تعالی کو ہی ہے اسی طرح کسی عورت کے پیٹ میں حمل کاہونا اور اس کا جننا بھی اللہ ہی کے علم سے ہوتا ہے۔دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ اللہ کے دین کو نہ ماننے والوں اور اللہ کے علاو ہ کسی دوسرے کی عبادت کرنے والوں سے اللہ تعالی یہ پوچھیں گے کہ وہ لوگ کہاہیں جنہیںتم میر ے برابر مانا کرتے تھے؟ وہ لوگ کہیں گے کہ ہم میں کا کوئی بھی اس عقیدے کا ماننے والا نہیں ہے اور جن لوگوں کی یہ عبادت کرتے تھے وہ سب ان سے غائب ہوجائیںگے اور یہ لوگ سمجھ لیںگے کہ اب کوئی بچاؤکی صورت نہیں ہے ۔تیسری بات یہ بتلائی گئی ہے کہ اللہ کے دین کو نہ ماننے کے نتیجے میں انسان دنیا کا اتنا حریص ہو جاتا ہے کہ ہر حال میں وہ دنیا کے پیچھے پڑا رہتا ہے اور اس کے جمع کرنے سے اکتا تا نہی ہے اور اگر کوئی تنگی ہوجاتی ہے تو صبر کرنے کی بجائے فورا ہی مایو س ہوجاتاہے اور جب ہم کچھ دیتے ہیں تو کہنے لگتا ہے کہ میں تو تھا ہی اس کامستحق یہ تومجھے ملناہی چاہئے تھا وہ یہ سوچتاہے کہ یہ سب تو میر ی ذاتی محنت اور ہوشیا ری سے ملاہے اور اتراکر یہ بھی کہہ بیٹھتاہے کہ قیامت آنے والی نہیں ہے اوراگر آئی بھی تو میرے لئے وہاں بھی نعمت ہوگی کیوںکہ میں تو اللہ کا نافرمان نہیںہوں میں تو اپنے لحاظ سے ٹھیک کررہاہوں اور برحق ہوں ( بدقسمتی سے یہی ہم میں سے کچھ لوگوں کا بھی حال ہوتانظر آتاہے کہ وہ دین سے کوسوں دور ہوتے ہیں اوراسلام کو بدنا م کرنے والا کوئی بھی عمل ان سے باقی نہیں رہتا پھر بھی جب بھی کچھ لوگوں سے بات ہوتی ہے، جنت وجہنم کی بات چھڑتی ہے اورکسی کے اللہ کی نظر میں محبوب اور مردود ہونے کا ذکر آتا ہے تو ایسے لوگ فورا بول ا ٹھتے ہیں ہم پہ تو یہاں بھی اللہ کی رحمتیں ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہاں بھی اللہ کی رحمتیں ہمارے ساتھ ہوں گی اللہ ہمارے ساتھ انعام واکرام کا معاملہ کریںگے یا درہے کہ اس مرحلے پہ پہنچ کر دنیا وآخرت دونوں کی بھلائیوں سے یکسر محروم ہوجاتاہے اور اس کے پچھلے سارے اعمال بھی اکارت ہوجاتے ہیں …)اللہ تعالی فرماتے ہیں آنے والے وقت میں معلوم ہوجائے گا کہ کتنے حق پہ تھے اور ہم انہیں سخت عذاب کا مزہ چکھا ئیں گے۔ آیت:۵۱ سے۵۴ ؍تک اللہ تعالی یہ فرمارہے ہیں کہ جب ہم ایسے لوگوں پہ انعام کردیتے ہیں تو وہ ہم سے دور ہونے لگتے ہیں اور اگر مصیبت میں گرفتا رہوتے ہیں تولمبی لمبی دعائیں کرنے لگتے ہیں ۔ (اتفا ق سے اس وقت یہی حالت ہم میں سے کچھ لوگوں کی بھی ہوگئی ہے کہ ہم اللہ تعالی کی کھلم کھلا نافرمانی کرتے رہتے ہیں اور ایسے ایسے کام کر جاتے ہیں جو ہر وقت ہماری طرف سے اللہ کی شان اوران کے دربار میں دھمکی اور چیلنج کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اورجب ہم تباہی کے آخری دہانے پہ جاپہنچتے ہیں اور یہاں تک کہ اسباب کی دنیا میں ہماری حالت کے سنورنے کا بظاہر کوئی راستہ باقی نہیں رہتا تو ہم دینداری اختیار کرتے ہیں اورتعجب کی بات تو یہ ہے کہ اس میںاصل غرض دینداری نہیں بل کہ خود پہ آئی تباہی سے پچاؤ ہو تی ہے ۔ اس لئے چاہے ہم جس قدر بھی گنا ہوں میں ڈوبے ہوںخدا نہ خواستہ اگر ہمارے دن برے ہوتے نظر آرہے ہو ںیا برے ہوچکے ہوں تو ہمیں اپنے کریم مولی سے فورا لو لگانا چاہئے لیکن اس عزم کے ساتھ کہ اب اپنے مولی کوناراض کرنے والے کام کبھی نہ کریں گے چاہے حالات اچھے ہوں یا برے اور ساتھ ہی اللہ تعالی سے حالا ت کے درست ہونے کی دعا بھی کر نی چاہئے پھر دنیا وی لحاظ سے بگڑے حالات کے بننے کی جو سب سے اچھی اور ممکن شکل ہو اسے اپنایاجائے تو انشاء اللہ کوئی وجہ نہیں کہ حالات ٹھیک نہ ہوں )ان لوگوں سے دوسری بات یہ کہی گئی کہ ذرا سوچو کہ اگر قرآن پاک اللہ کی کتاب ہواور تم ماننے سے انکار کردو تو بھلا تم ضدی لوگوں سے بڑا گمر اہ کون ہوگا؟اور پھر قر آن پاک کے برحق ہونے کا یقیں دلاتے ہوئے فرمایاجارہاہے کہ میں ملک کے چاروں طرف اور خود ان کی ذات میں بھی اپنی نشانیاں دکھلادوں گا جن سے یہ معلوم ہوجائے گا کہ قر آن برحق ہے اور یہ سب ایسی باتیں اس لئے کررہے ہیں کہ انہیں اپنے رب سے ملنے میں شک ہے تو آگاہ ہوجانا چاہئے کہ کوئی چیز اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے وہ ہرچیز کو اپنے پا س حاضر کرسکتے ہیں۔ اور ان کو بھی حاضر کریں گے۔
اللہ پا ک نے اس پارے میں مجموعی اعتبار سے آخرت کی دلیل اس میں ہونے والے واقعات مثلا حساب وکتاب اور جنتیوں اور جہنمیوں کے تذکرے کی شکل میں پیش فرمائی ہیں۔ ان دلائل کو بیان کرتے ہوئے چند باتیں ایسی آئی ہیں جن کاجاننا ہمارے لحاظ سے اہم ہے جیسے:سورہ ٔ شور ی کی آیت: ۱۳؍ میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ دین اسلام کوئی نیا دین نہیں ہے بل کہ اس کی روح، اصول ،عقائد اور بنیادی احکام وہی ہیں جو اس سے پہلے کے انبیا نے بتلائے تھے ۔حضرت نوح سے لیکر حضرت عیسی ؑ تک جتنے بھی نبی اور رسول آئے سب نے بنیادی طور پہ وہی باتیں بیان فرمائیں جو اسلام میںپیغمبر اسلام اور قر آن پا ک کی زبانی بیان کی جاتی ہیں۔جیسے یہ کہ تم دین کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں اختلاف اور پھوٹ مت پید اکرو۔حضرت تھانوی فرماتے ہیں مراد اس دین سے اصول دین ہیں جو مشترک ہیں تمام شرائع میں مثل توحید ورسالت وبعث ونحوہہ اور قائم رکھنا یہ کہ اس کو تبدیل مت کرنا اس کو ترک مت کرنا اور تفرق یہ کہ کسی بات پہ ایمان لائیں اور کسی پہ نہ لائیں یا یہ کہ کوئی ایمان لائے اور کوئی نہ لائے حاصل یہ کہ توحید وغیرہ دین قدیم ہے جو تمام شرائع میں مشترک ہیں۔
آیت :۱۵؍ میں عالمی برادر ی کے درمیان ملاپ اور اتحاد پیدا کرنے اور اس کے باقی رکھنے کا بڑاہی سنہرا طریقہ یہ بیان فرمایا کہ الگ الگ قوموں کے الگ الگ مذاہب پر عمل کو برداشت کرتے ہوئے جو چیزیں مختلف مذاہب میں یکساں ہوں ان میں الگ الگ مذاہب کے ماننے والے لوگ ایک ہو جائیںاور ان کو آپسی محبت کاذریعہ بنا لیں۔جس سے یہ ثابت ہو جاتاہے قرآن کریم امن عالم کا علمبردار اور اس کا محافظ ہے نہ کہ اس کا قاتل۔ اس سلسلے میں حقیقت کو جاننے کے لئے قرآن کریم سے پہلے پوری دنیا کی نہ سہی ،صرف مکہ اور مدینہ کے لوگوں کی حالت کا ہی ایک معمولی سا جائزہ بھی لیا جائے تو یہ یقین ہو جائے گا کہ انسانیت نواز قرآنی تعلیمات پر نفرت آمیزی کا الزام یا تو بذاتِ خود ،دیدہ ودانستہ نفرت آمیزی اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہے یا پھر قابل رحم جہالت او رغلط فہمی پر ۔ چناں چہ ! تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ لڑائی جھگڑا عربوں کی شرست بن چکی تھی ۔بات بات پر لڑبیٹھنا ان کے لیے ایک پر لطف عمل کی حیثیت اختیا رکرگیا تھا ۔وہ اسے اپنی زندگی کا ایک دلچسپ حصہ مانتے تھے۔ جی ہاں !وہ اتنے بڑے جنگجو تھے کہ ان کا عقیدہ بن گیاتھا کہ اگرکوئی شخص بستر پر مر تاہے، تو اس کی روح ناک سے نکلتی ہے۔ یعنی وہ ذلیل مرتا ہے۔اوراگرمیدانِ جنگ میں لڑکرمرتا ہے، تو اس کی روح زخم سے نکلتی ہے او روہ بہادر ی کی موت مرتاہے۔ایک شاعر کہتا ہے:
اور ہما ر ا کوئی بھی سردار ناک کی موت نہیں مرا ‘‘۔ا س شعر میں شاعر بلا وجہ لڑائی جھگڑے، بے فائدہ مرنے مارنے ، یوں ہی خون خرابہ کرنے ا و راپنوں ودوسروں کا امن و سکون غارت کرنے کو اپنی شان، اپنا مایہ ٔ افتخار اور صدیوں سے باقی اپنا نسلی امتیا ز بتارہا ہے۔ ایک دوسرا شاعر کہتا ہے :
وہ لو گ اپنے بھائی سے اس وقت کسی بھی دلیل کا مطالبہ نہیں کر تے، جب وہ لڑائیوں میں انھیں بلاتاہے ۔ لیکن میری قوم بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود معمولی سی جنگ کے لیے بھی کسی کام کی نہیں ہوتی ۔اس لیے میر ی تمنا یہ ہے کہ کاش کہ میرا تعلق ایسی قوم اور ایسے لو گوںسے ہوتا ،جو گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار خوب جم کر لڑتے ہیں۔ جی ہاں ! ان کے جنگی صفت ہونے کا نتیجہ ہی تھا کہ معمولی معمولی بات پر وہ برسوں لڑا کر تے تھے ۔ان کی طویل المدۃ جنگوں میںاوس وخزرج کے درمیان ہو نے والی وہ لڑا ئی بھی ہے جوایک باپ کی نسل سے تعلق رکھنے والے لو گو میں ایک سوبیس برسوں(۱۲۰) تک چلتی رہی!۔ (تفسیر مظہری ۔ج؍۲۔ص؍۳۲۱ ۔از:محمد بن اسحاق ودیگر)
اب دیکھنا یہ ہے کہ اتنے بگڑے ہوئے ماحول میں قرآن ِپاک نے سب سے پہلے کس چیز کا حکم دیا او رسب سے پہلے اپنی کو ن سی تعلیم پیش کی ؟ قربان جائیے ! امنِ عالم کے علمبردار قرآن پاک پر !کہ اس نے اپنی سب سے پہلی تعلیم یہ دی کہ تعلیم حاصل کرو۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:’’ اس رب کے نام سے پڑھوجس نے پیدا کیا ۔جس نے انسانوںکوایک گوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا ‘‘۔(سورہ ٔ اقرأ،آیت: ۱،۲)۔قرآنِ پاک نے سب سے پہلے تعلیم حاصل کرنے کی تا کید اس لیے دی کیوں کہ صحیح تعلیم کے ذریعے انسان صحیح انسانی تہذیب وتمد ن سے آ راستہ ہو تے ہیں ۔ ان میں انسانیت شناسی اور احترام ا نسانیت کا جو ہر پیدا ہوتا ہے اورصحیح تعلیم کے ذریعے ہی انسان قانون بنا تا بھی ہے او رقانون (Law and order (کی پاسدار ی (Mantain)بھی کرتا ہے – اس کے بعد قرآن ِ کریم نے سو رہ ٔ نساء ،آیت :۱ ۔انعام آیت: ۲۔ حجر،آیت:۲۶۔مؤ منون ،آیات :۱۲تا ۱۴۔ فرقان، آیت: ۵۴۔زمر،آیت: ۶۔ مومن، آیت: ۶۷۔حجرات، آیت:۱۳۔لقمان، آیت: ۳۶تا۴۰۔دھر، آیت: ۱، ۲۔ طارق، آیات: ۵تا۷۔رحمن، آیت :۱۴۔مرسلات ،آیت:۲۰ ، ۲۳۔ روم، آیت :۲۰۔ صافات، آیت: ۱۱۔مومن ،آیت:۶۴؍کے ذریعے دنیا جہان کے سارے انسانوںکے مادہ ٔ تخلیق او رعنصر ِپیدائش کو ایک قرار دیکر یہ بتلا نا چاکہ دنیا کے سارے انسان اس لیے ایک ہیں کہ ان کی اصل ایک ہے ۔چاہے ان کا تعلق دنیا کے جس خطے سے بھی ہو، ان کے نظریات و افکار جو بھی ہو ں، چاہے ان کی زبانیں ،رنگ ،غذائیں ، ان کا عہدہ کچھ بھی ہو ، ان کی صلاحیتیں جیسی بھی ہوں ،ضرورت کے لباس اوردوسرے طریقہ ہائے ز ندگی جتنے بھی مختلف ہوں۔ انسانیت میں تمام انسا ن برابر ہیں۔کسی بھی انسان کو انسان مانتے ہوئے گھٹیا نہیں سمجھا جاسکتا ۔کسی بھی انسان کو پیدا ئشی طورپر دوسرے کا دشمن نہیں قرادیا جائے گا ۔قرآن کے اس نظریہ کے مطابق دنیا کے سا رے انسان مسلم،ہندو، عیسائی ،یہودی ،سکھ ،بدھسٹ،یا کسی بھی دوسرے مذہب کا ماننے والا
انسان بہر حال انسان ہے وہ ذاتی طورپر ’’قابل ِہزاراحترام‘‘ ہے۔دنیا کے کسی بھی انسان کے گندے فکر وعمل کو ضرور گندہ کہا جائے گا اور اگر وہ اپنی گندہ فکر وعمل کو دوسرے پر تھوپنے کی کو شش کرتاہے تواسے بہر حال روکا جائے گا، لیکن اس کے باوجود کسی کو ذاتی طورپر حقیر نہیں سمجھا جائے گا ۔یہی تو وجہ ہے کہ قرآنی تعلیمات پر مبنی مذہب ’’ اسلام‘‘ میں دنیا جہان کے سارے انسانوں کا جھوٹا پاک ہے ۔اس کی ہاتھ لگائی ہو ئی کو ئی بھی چیز محض ہاتھ لگانے کی وجہ سے ناپاک نہیں ہو تی ۔قرآنی تعلیما ت کی طرف سے انسانیت کو عطا کر دہ اِس عزت کا نتیجہ ہی ہے کہ اسلام میں کسی بھی مسلم یا غیر مسلم حا ئضہ ،نفساء یا جنبی
کے جسم کو حسی طورپر ناپاک نہیں مانا جاتا۔اور ان کے چھونے سے کوئی چیز ناپاک نہیں ہو تی۔
زبان ورنگ کا جھگڑا اور قرآن: ناسمجھی میں ہر زمانے کے کچھ یا اکثرانسانوں نے زبان کی وجہ سے ایک دوسرے کو نفرت کی نگا ہ سے دیکھا ہے۔ قدیم عرب نے تو بھلا اپنے علاوہ، دنیا بھر کے دوسرے تمام انسانوں کو ’’گونگا‘‘ ہی کہدیا تھا۔ کوئی انسان اپنی زبان کا خواہ کتنا ہی بڑا ماہر ہو ،لیکن ان قدیم عربوں کے نزدیک وہ گونگا کا گونگا ہی مانا جاتااور بے زبان ہی سمجھا جاتا تھا ۔زبان کے اختلاف نے ہر زمانے میں کُشتو ں کے پُشتے لگائے ہیں۔ اورآج بھی کئی زبانوں کے بولنے والے، خود ایک ملک کے لوگ بھی ایک دوسرے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے او ر آپس میں دست وگریباں رہتے ہیں ۔ اور بسا اوقات ناعاقبت اندیشی اور بوالعجبی میں مبتلا ہو کر زبانوں کے اختلاف کو وجہ امتیاز گردانتے ہوئے نہ صرف ہم وطنوں یا ہم مذہب اور ہم مشرب لوگوں نے اپنے درمیان نفرت کی دیوارحائل کرلی بل کہ یہ کہتے ہوئے انسانیت شرمسار ہو جاتی او ردل دہل جاتاہے کہ زبانوں کے خود ساختہ امتیازاور شیطانی شرف کے احساس میں فخراں اور غراں ا یسے انسانوں کے درمیان بھی کشت وخون کا بازار گرم ہو ا جو بیک وقت ہم وطن بھی تھے او رہم مذہب بھی اور آخرکا ر ایک ملک کی وحدت کو پارہ پارہ کر تے ہوئے لاشوں کی اینٹوں او ر خون کے گاروں سے دو ملکوں کی تعمیر کرلی گئی ۔
لیکن قرآن ِکریم کی طرف سے جاری ’’امن مہم‘’ کا کیا پوچھنا!!اس نے زبان کے اختلاف وتنوع کی وجہ سے ہونے والے بلا وجہ کے جھگڑے وفساد کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے جو بات کہی او رزبانوں کے الگ الگ ہونے کو جس حیثیت سے پیش کیا ہے، بلا شبہ اسے سمجھنے کے بعد دنیا میں اللہ تعالی کو ماننے والے او راپنے رب کو پہچاننے والے تمام انسان ہی زبان کے اختلاف کو جھگڑے کا ذریعہ بنانے کی بجائے ،اس کی روز افزوں کثرت کی تمنا کر یں گے۔وہ یقینا یہ سمجھیں گے کہ دنیا میں جتنی زبانیں ہو تیں ،اتنا ہی زیادہ اللہ کافضل ہو تا!۔قرآن ِکریم کہتا ہے :’’ اور اللہ تبارک وتعالی کی نشانیوں میں سے اللہ تعالی کا آسمان وزمین کو پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا الگ الگ ہوناہے ۔یقینا اس میں عقلمندوں کے لیے بڑی نشانیا ں ہیں‘‘۔(سورہ ٔ روم؍آیت ؍۲۲)قر آن ِکریم کی ا س آیت کے مطابق ،جس طریقے سے آسمان وزمین ،سمندروں ، دریاؤں ،ہواؤں، پہاڑوں،آگ، پانی ، تیل ،دودھ،سونے ،چاندی او ران کے علاوہ لاکھوں دوسری بڑی ،چھوٹی چیزوں کی پیدا ئش وبناوٹ اللہ تعالی کا بڑا کا رنامہ ،ان کے وجود کی دلیل اوران کی طرف سے بندوں کے لیے نعمت اور بندوں کے ان چیزوں کے احتیاج کی وجہ سے ان کی طرف سے بندوں پر احسان ہے، ٹھیک اسی طرح زبانوں او ر رنگوں کا مختلف ا ورکثیر ہونا بھی اللہ کی حکمت ،ان کی بڑی نشانی اور بندوں کے حق میں ایک گراں قدر نعمت ہے ۔ اس قر آ نی نظر یہ کے مطابق زبانوں او ررنگوں کی گوناگوںنیت اللہ تعالی کی نعمت ٹھہری ۔او رظاہر ہے کہ جب ایک انسان کسی چیزکو اللہ تعالی کی نعمت او رنشانی سمجھے گا، تو اسے دیکھ کر خوش ہو گا۔ اس طرح قر آن ِ کریم اپنے اس فکر کے ذریعے انسانوں کو یہ سمجھانا چاہرہاہے کہ تم میں سے جس کے پا س بھی جو زبان ہے وہ اللہ کی نعمت اوراس کا فضل ہے ۔ اس لیے جب تم دوسری زبانوں کے بولنے والوں کو دیکھو،تو اللہ کا شکر اد ا کرواور ان کی بڑا ئی بیان کر و کہ منھ ایک ،سار ا نظام ایک اور مافی الضمیر کی ادائیگی کے لیے اس میں موجود گوشت کاٹکڑا (Tongue)بھی دنیا جہان کے سارے انسانوں میں یکساں، لیکن نہ صرف بولیا ں (Languages)او رالفاظ(Words) ،بل کہ ایک ہی بولی کے لہجے(Accents ) بھی حیرت انگیز حد تک مختلف ہیں۔ اور حسد یا نفرت کی بجائے یہ سمجھو کے تمہاری اور ان کی زبانیں یکساں طورپر اللہ کی نعمت ہیں۔اللہ کی نعمت ہونے کے ناطے ان کی زبانیں نہ تو تم سے گھٹیا یا کم درجے کی ہیں کہ تم ان سے نفرت کرو اور نہ تم سے افضَل ہیںکہ تم ان سے حسد اور دشمنی کر و۔نہ تم’’ محض‘‘ اپنی زبان کی بنیا د پر کسی سے افضل ہو کہ اسے گھٹیا سمجھو اور نہ دوسرا کوئی محض اپنی زبان کی وجہ سے تم سے افضل ہے کہ تم اس سے حسد و عداوت رکھو۔یہی حال رنگوںکے اختلاف کا بھی ہے کہ بد قسمتی سے انسانوں کے رنگوں کے اختلاف کو بھی لو گو ں نے دلوں کے بٹوارے اور حیثیتوں کی تقسیم کا ذریعہ بنالیا ۔جی ہاں !یہ کالے اور گورے کا فرق ہی تھا کہ سیاہ فام افریقیوںکی بستیوں میں آگ لگا کر انھیں نکالا جاتاتھا ا ورگورے انگریز جانوروں کی طرح اِن کا شکار کرلیا کر تے !۔کتنے تو شکار کے دوران ہی دم توڑدیتے! ۔پھر انھیں جہازوں میں بھر کر لایا جاتاتھا!۔ بہت؎ سے کالے شکا رماحول اور آب و ہو ا کی عدمِ موافقت اور سہولتوں کی عدم فراہمی کے نتیجے میں گھٹ گھٹ کر راستے میں ہی دم توڑ دیا کر تے تھے! …۔ مگر قرآن کے تصور امن پر ہزار بار قربان جائیے! کہ اس نے انسانوں کے مابین شکل وصورت کے اختلاف کو ذریعہ ٔ فساد بننے سے روکنے کے لیے اسے خدائی قدرت کا مظہر قرار دیاآیت: ۱۷ سے ۱۹؍ تک دوباتیں بیان کیں :پہلی بات تو یہ بیان فرمائی کہ اللہ کے نیک بندے بہت ہی سمجھ دار ہوتے ہیںوہ کسی بھی بری چیز کے بارے میں یہ ہی چاہتے ہیں کہ وہ نہ آئے بل کہ آتے آتے ٹل جائے وہ کسی بھی مصیبت کا شکارہو نا نہیںچاہتے ۔دوسری بات یہ بتلائی کہ جو دین کو مقصد بنا کر اسے حاصل کرنے کے لئے محنت کرتے ہیںتو جتنی محنت کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ اللہ تبار ک وتعالی انہیں نوازتے ہیں اور جو لوگ دین کی بجائے دنیا کو ہی مقصد بناتے ہیںاللہ تعالی انہیں برائے نا م عطا تو کردیتے ہیں لیکن آخرت میں انہیں کچھ بھی نہیں ملتا۔آیت :۲۳؍ میں نبی ﷺ کی نبوت کے برحق ہونے کو ثابت کرتے ہوئے یہ بیان کیاگیا ہے کہ اگر محمد ﷺ جھوٹے ہوتے تو اللہ تعالی ان کے دل ودماغ پر مہر لگادیتے پھر وہ اتنا دلچسپ کلام نہیں پیش کرسکتے تھے ۔آیت :۲۹؍۳۰؍ میں یہ بتلایا گیا ہیکہ لوگوں پہ جوبھی اجتماعی یاانفرادی پریشانیاں اور حالات آتے ہیں ان سب کی وجہ اللہ کی نافرمانی ہے اور ان سب کا حل ہرشعبے میں اللہ کی فرماں بر داری ہے اور بس۔جب کہ آیت :۳۵ سے ۳۸؍ میں پہلے تو یہ بتلایا گیا ہے کہ بندوں کو جو کچھ بھی دیاجاتاہے وہ بہت تھوڑ اہو تا اور اللہ کے پاس جو ہوتا ہے وہ بہت زیادہ ہوتا ہے اس لئے ہماری کوشش ہو نی چاہئے کہ ہم وہ چیز حاصل کریں جو اللہ کے پاس ہے۔
��