قربانی کی کھال گوشت ہی کی طرح ہے، اُسے ضایع نہ کریں
مولانا ندیم احمد انصاری
قربانی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہے،اس لیے قربانی کاجانور، اس کا گوشت اور کھال بھی قابلِ احترام ہے۔رسول اللہ ﷺکاارشاد ہے : قربانی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل جانور کا خون بہانا ہے، قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئیں گے، قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے، اس لیے خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔ نیز آپ ﷺسے یہ بھی منقول ہے کہ قربانی کرنے والے کو جانور کے ہر بال کے برابر ایک نیکی دی جاتی ہے۔ عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ، أَحَبَّ إِلَى اللّٰهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ، إِنَّهَا لَتَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا، وَأَشْعَارِهَا، وَأَظْلَافِهَا، وَأَنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنَ الْأَرْضِ، فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا. وَيُرْوَى عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: فِي الْأُضْحِيَّةِ لِصَاحِبِهَا بِكُلِّ شَعَرَةٍ حَسَنَةٌ، وَيُرْوَى بِقُرُونِهَا.(ترمذی)
فقہا نے صراحت کی ہے کہ قربانی کی کھالوں کا حکم بالکل گوشت کی طرح ہے۔ اللحم بمنزلۃ الجلد فی الصحیح۔ (ہدایہ، ہندیہ) لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ مسلمان قربانی کے جانور کی کھالوں کے ساتھ بے احترامی یا کراہیۃ کا معاملہ کرتے ہیں، جب کہ بعض علاقوں میں اسے باقاعدہ کھایا بھی جاتا ہے۔ نیز جس کا دل نہ چاہے، وہ نہ کھائے، لیکن اس کے ساتھ تحقیر کا رویہ اختیار کرنا ہرگز مناسب نہیں۔ قربانی کی کھالوں کا ضایع کرنا، اسے دفن کر دینا، جلا دینا، بہا دینا یا پھینک دینا ایسا ہی ہے، جیسے جانور کو قربان کر کے اس کا گوشت ضایع کر دینا، جلا دینا، بہا دینا یا پھینک دینا۔جس کا کوئی عقل مند روا دار نہیں ہو سکتا۔
عام حالات میں بھی عید الاضحی کے موقع پر جانور کی کھالوں کا مسئلہ در پیش ہوا کرتا تھا، لیکن اس سال کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے اثر سے اس کی سنگینی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس لیے کہ عام حالات میں مدارس کے تعاون سے ذریعے عوام کو کافی راحت مل جاتی تھی، لیکن لاک ڈاؤن میں طلبہ کی عدم موجودگی میں اس کا موقع نہیں۔ ایسے میں قربانی کرنے والوں کو چاہیے کہ یا تو از خود کھالوں کو ایسے مدارس میں پہنچانے کی فکر کریں، جہاں اس کا باقاعدہ سینٹر قایم کیا گیا ہے یا اسے قابلِ استعمال بنا کر خود ہی استعمال کر لیں، یا کسی ایسے شخص کو اس کا مالک بنادیں جو اسے صحیح مصرف تک پہنچا دے یا اپنے استعمال میں لے آئے۔اس کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ جسے کھال دی جائے وہ فقیر یا محتاج ہی ہو۔ جِلد (کھال) کا حکم مثل لحم (گوشت) کے ہے۔ جس طرح لحمِ اضحیہ کا غنی کو دینا جائز ہے، اسی طرح جلد بھی غنی کو دینا جائز ہے، جب کہ اس کو تبرعاً دیا جائے، اس کی کسی خدمت و عمل کے عوض میں نہ دیا جائے۔ اور جب اس کو غنی کی مِلک کر دیا جائے، (اس کے لیے) اس کو فروخت کرکے اپنے تصرف میں لانا بھی مثل دیگر اموالِ مملوکہ کے جائز ہے۔(امدادالفتاویٰ جدید محقق)
رسول اللہ ﷺ کا اہتمام
رسول اللہ ﷺ جانور کی کھالوں کی حفاظت کا بہت اہتمام فرماتے تھے۔حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ ایک لڑکے کے پاس سے گذرے جو ایک بکری کی کھال اتار رہا تھا(لیکن وہ اسے ٹھیک سے نہ اتار رہا ہوگا، اس لیے) آپ ﷺ نے اسے تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ہٹو میں اس کا طریقہ بتاتا ہوں! آپ ﷺ نے بہ ذاتِ خود اپنا ہاتھ کھال اور گوشت کے اندر ڈالا، یہاں تک کہ آپ ﷺ کا ہاتھ بغل تک (گوشت کے اندر) چلا گیا۔عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ بِغُلَامٍ وَهُوَ يَسْلُخُ شَاةً، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: تَنَحَّ حَتَّى أُرِيَكَ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ بَيْنَ الْجِلْدِ وَاللَّحْمِ فَدَحَسَ بِهَا حَتَّى تَوَارَتْ إِلَى الْإِبْطِ.(ابوداود)
مُردار کی کھال کا استعمال
جن جانوروں کوشرعی ضابطے کے مطابق ذبح کیا گیا ہو، ان کا تو کھانا بھی جائز ہے، جب کہ خارجی استعمال کے لیے شرعی طور پر ذبح کیے جانے کی بھی ضرورت نہیں۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، حضرت نبی کریم ﷺ نے ایک مَری ہوئی بکری پائی- جو حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی کو خیرات میں دی گئی تھی- آپ ﷺ نے فرمایا:تم لوگوں نے اس کی کھال سے فایدہ کیوںنہیں اٹھایا؟ لوگوں نے عرض کیا: وہ تو مردار تھی! آپ نے فرمایا : حرام تو مُردار کو کھانا ہے(اس کی کھال سے فایدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: وَجَدَ النَّبِيُّ ﷺ شَاةً مَيِّتَةً أُعْطِيَتْهَا مَوْلَاةٌ لِمَيْمُونَةَ مِنَ الصَّدَقَةِ، قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: هَلَّا انْتَفَعْتُمْ بِجِلْدِهَا، قَالُوا: إِنَّهَا مَيْتَةٌ، قَالَ: إِنَّمَا حَرُمَ أَكْلُهَا.(بخاری)
دباغت اور کھال کی پاکی
غزوۂ تبوک میں رسول اللہ ﷺ ایک گھر میں تشریف لے گئے، وہاں ایک مَشک لٹکی ہوئی تھی، آپ ﷺ نے اس میں سے پانی مانگا تو لوگوں نے کہا کہ یہ تو مُردار (کی کھال کی بنی ہوئی) ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی دباغت، اس کی پاکیزگی ہے۔ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْمُحَبَّقِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ أَتَى عَلَى بَيْتٍ فَإِذَا قِرْبَةٌ مُعَلَّقَةٌ فَسَأَلَ الْمَاءَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا مَيْتَةٌ، فَقَالَ: دِبَاغُهَا طُهُورُهَا.(ابوداود )اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت نبی کریم ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جب کھال کو دباغت دے دی جائے تو وہ پاک ہوجاتی ہے۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، يَقُولُ: إِذَا دُبِغَ الْإِهَابُ فَقَدْ طَهُرَ.(ابوداود)
خیر القرون میں کھالوں کا استعمال
خیر القرون میں جانور کی کھالوں کا استعمال عام تھا۔ بخاری شریف میں ہے؛اُم المؤمنین، زوجۂ نبیﷺ، حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہماری ایک بکری مرگئی تو ہم نے اس کی کھال کو دباغت دے دیا، پھر ہم اس میں برابر نبیذ بناتے رہے، یہاں تک کہ وہ پرانی ہوگئی۔ عَنْ سَوْدَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَتْ:مَاتَتْ لَنَا شَاةٌ فَدَبَغْنَا مَسْكَهَا، ثُمَّ مَا زِلْنَا نَنْبِذُ فِيهِ حَتَّى صَارَ شَنًّا.(بخاری )نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی صاحب زادی (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا) جب رخصتی کے بعد میرے پاس روانہ کی گئیں، اُس رات ہمارا بچھونا کچھ نہ تھا، سوائے بکری کی کھال کے۔ عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:أُهْدِيَتِ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِلَيَّ، فَمَا كَانَ فِرَاشُنَا، لَيْلَةَ أُهْدِيَتْ، إِلَّا مَسْكَ كَبْشٍ.(ابن ماجہ)
قربانی کی کھال خیرات کرنا
اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ مدارس یا کسی دوسرے صحیح مصرف تک کھالوں کو پہنچانا ممکن نہ ہو تو خود ہی استعمال کر لیں، لیکن وہ بھی نہ ہو سکے تو پھر کسی کو ہدیہ یا خیرات کر دیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ قربانی کا جانور -جو میں نے ذبح کیا تھا- اس کے جھول اور کھال کو خیرات کردوں۔ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِجِلَالِ الْبُدْنِ الَّتِي نَحَرْتُ وَبِجُلُودِهَا.(بخاری)
قربانی کی کھال اجرت میں نہ دی جائے
خیال رہے کہ اپنی قربانی کی کھال کسی کو کسی خدمت کے عوض یا اجرت میں دینا درست نہیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ قربانی کے جانور کے پاس کھڑے ہوں اور ان جانوروں میں سے تمام چیزیں یعنی ان کے گوشت، ان کی کھالیں اور جھولیں تقسیم کردی جائیں اور قصاب کی اجرت میں اس میں سے کچھ بھی نہ دیا( یعنی اجرت الگ مال سے ادا کی) جائے۔ أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا، وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا.(بخاری)
کھالوں کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے
مختصر یہ کہ قربانی کی کھال قربانی دینے والا اپنے استعمال میں لانا چاہے مثلاًاس کا ڈول بنایا یا مصلیٰ بنایا اور کسی کام میں استعمال کیا تو درست ہے، اسی طرح کسی دوسرے کو دیا اور اس نے اپنے کام میں استعمال کیا تو یہ بھی درست ہے، لیکن اگر قربانی دینے والے یا اس کے وکیل نے وہ کھال بیچ دی تو اب اس سے جو رقم حاصل ہوئی، اس کا صدقہ کر دینا ضروری ہے، جس میں تملیک شرط ہے، اس رقم کو مدرسین کی تنخواہ میں استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ (درمختار مع شامی، محمود الفتاوی مبوب)
(مضمون نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے ڈیرکٹر و محقق ہیں )