تکبیر تشریق اور ایام تشریق

مولانا ندیم احمد انصاری

        ذو الحجہ کا مہینہ اور خصوصیت سے اس کا پہلا عشرہ بڑی عظمت و فضیلت والا ہے۔ اس مہینے سے متعدد نیک اعمال متعلق ہیں۔ اِنھی خصوصی اعمال میں  تکبیرِ تشریق بھی ہے، جو ایامِ تشریق میں فرض نمازوں کے بعد پڑھی جاتی ہے۔سال بھر میں صرف تیئیس (23)نمازوں کے بعد اسے پڑھا جاتا ہے، اسی کی یاد دہانی کے طور پر یہ مضمون ہدیۂ قارئین کیا جا رہا ہے، جس میں متعلقہ ضروری احکام و مسائل بھی درج کیے گئے ہیں۔

تشریق کے معنی

        ’تشریق‘ شروق سے بنا ہے، جس کے معنی ’طلوعِ آفتاب‘ کے آتے ہیں۔ تشریق سورج یا مشرق کی طرف رُخ کرنے یا کسی چیز کو دھوپ میں سکھانے کو کہتے ہیں، چوں کہ ان دنوں میں لوگ قربانی کا گوشت سکھایا کرتے تھے اس لیے ان دنوں کو ’ایامِ تشریق‘ کہا جانے لگا۔سمیت بذلک من تشریق اللحم، و وھو تقدیدہ و بَسطہ فی الشمس لیجفّ، لان لحوم الاضاحی کانت تشرق فیھا بمنی۔(دیکھیے ابنِ اثیر کی النہایہ)

ایامِ تشریق کا ذکر قرآن مجید میں

        قرآن مجید میں ایک مقام فرمایا گیا:وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِيْٓ اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ۔ اور اللہ کو گنتی کے دنوں میں ( جب تم منیٰ میں مقیم ہوں) یاد کرتے رہو۔ (البقرۃ) اور ایک مقام پر فرمایا گیا:وَاَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّعَلٰي كُلِّ ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ ؀ لِّيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ  ۚ فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَاۗىِٕسَ الْفَقِيْرَ؀اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو کہ وہ تمھارے پاس پیدل آئیں، اور دور دراز کے راستوں سے سفر کرنے والی ان اونٹنیوں پر سوار ہو کر آئیں جو (لمبے سفر سے) دبلی ہوگئی ہوں تاکہ وہ ان فوائد کو آنکھوں سے دیکھیں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اور متعین دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں، جو اللہ نے انھیں عطا کیے ہیں۔  چناں چہ (مسلمانو) ان جانوروں میں سے خود بھی کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاؤ۔ (الحج)

        حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے {ایام معلومات} اور {ایام معدودات}کے متعلق منقول ہے کہ{ایام معلومات} سے مراد عشرۂ ذی الحجہ کے دن اور{ایام معدودات}سے مراد ایامِ تشریق ہیں۔قال ابن عباس رضی اللہ عنہما: واذکروا اللہ فی ایام معلومات: ایام العشر، والایام المعدودات، ایام التشریق۔(بخاری)

خوشی، کھانے پینے اور ذکر کے دن

        ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے۔ یہ مسلمانوں کے لیے خوشی، کھانے پینے اور ذکر کے دن ہیں۔ حضرت عقبہ بن عا مر سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: عرفے کا دن، قربانی کا دن اور ایامِ تشریق ہم مسلمانوں کے لیے عید کے اور کھانے پینے کے دن ہیں۔ (ابوداؤد)

ایامِ تشریق میں روزہ

        چوں کہ یہ دن کھانے پینے اور خوشی منانے کے ہیں، اس لیے ان دنوں میں روزہ رکھنا جائز نہیںہے۔ابوالشعثاء کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایامِ تشریق کے کسی درمیانی دن میں ہم لوگ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد کھانا آیا اور لوگ قریب قریب ہوگئے، لیکن ان کا ایک بیٹا ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے فرمایا: آگے ہو کر کھانا کھاؤ! اس نے کہا: میں روزے سے ہوں۔ انھوں نے فرمایا: کیا تمھیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کاارشاد ہے کہ یہ کھانے پینے اور ذکر کے دن ہیں۔ (مسند احمد)اسی طرح حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام حضرت ابومرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے ساتھ ان کے والد حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ انھوں نے عبداللہ کی طرف کھانا بڑھایا اور فرمایا: کھاؤ! عبداللہ نے کہا: میں روزے سے ہوں۔ اس پر عمرو بن عاص نے کہا: کھاؤ! کیوں کہ یہ ایسے دن ہیں جن میں رسول ﷺ نے ہمیں افطار کا حکم دیا اور روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔امام مالک نے کہا: ان دنوں سے مراد ایامِ تشریق ہیں۔(ابوداؤد )

ان پانچ دنوں کے علاوہ روزہ رکھنا منع نہیں

        امامِ ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ اہلِ علم کی ایک جماعت نے ہمیشہ روزہ رکھنے کو مکروہ کہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیشہ روزہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ عیدالفطر، عیدالاضحی اور ایامِ تشر یق میں بھی روزے رکھے۔ جو شخص ان دنوں میں روزے نہ رکھے، وہ کراہت کے حکم سے خارج ہے۔ حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے، اور امام شافعیؒ کا بھی یہی قول ہے۔ امام احمدؒ اور اسحاقؒ فرماتے ہیں کہ ان پانچ دنوں کے علاوہ روزہ چھوڑنا واجب نہیں، جن میں روزے رکھنے سے آپ ﷺ نے منع فرمایا، اور وہ عیدالفطر، عیدالاضحی اور ایامِ تشریق ہیں۔(ترمذی )

تکبیرِ تشریق کے الفاظ اور اس کا پس منظر

        تکبیرِ تشریق کا پس منظر یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت جبریلؑجب حضرت اسماعیلؑ کے بدلے میں جانور لے کر پہنچے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اِس حال میں دیکھا کہ وہ اسماعیلؑ کو ذبح کرنے کے لیے بس تیار ہی ہیں تو اُنھوں نے اس خوف سے کہ مجھے پہنچنے میں اگر ذرا سی دیر ہوئی تو ابراہیم علیہ السلام اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرڈالیں گے، اس لیے انھوں نے حضرت ابراہیم کو متنبہ کرنے کے لیے دور سے ہی پکارا: اللّٰہ أکبر، اللّٰہ أکبر۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب انھیں دیکھا تو فرمایا: لا إلٰہ إلا اللّٰہ، واللّٰہ أکبر۔ اور جب اسماعیلؑ کو فدیے کے جانور کا علم ہوا تو انھوں نے کہا: اللّٰہ أکبر، وللّٰہ الحمد۔(البحر الرائق) اس طرح تکبیرِ تشریق کے الفاظ یہ ہوئے:اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔(کنز العمال)

تکبیرِ تشریق کی مشروعیت

        تکبیرِ تشریق کی مشروعیت اس وقت کی تعظیم کے لیے ہے، جس میں مناسکِ حج ادا کیے جاتے ہیں۔اس لیے اس کی شروعات یومِ عرفہ سے ہوتی ہے کہ اس دن حاجی عرفات کے میدان میں قیام کرتے ہیں۔ (بدائع الصنائع) حضرت عکرمہؒ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ وہ عرفے کے دن صبح سے ایام تشریق کے آخری دن تک تکبیریں کہتے تھے۔ (سنن کبری بیہقی)

تکبیرِ تشریق کا حکم

        ۹/ ذی الحجہ کی نمازِ فجر سے ۱۳/ ذی الحجہ کی نمازِ عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ تکبیرِ تشریق پڑھنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔ تکبیرِ تشریق ہر مسلمان پر واجب ہے، خواہ وہ مسافر ہو یا مقیم، مرد ہو یا عورت، شہری ہو یا دیہاتی، آزاد ہو یا غلام، جماعت سے نماز پڑھنے والا ہو یا منفرد۔ البتہ ان دنوں کی کوئی نماز چھوٹ جائے تو بعد میں اس کی قضا کے وقت تکبیرِ تشریق پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح پہلے کی کوئی قضا نماز جو کہ واجب الادا تھی،اسے ان دنوں میں قضا کرے، تو بھی تکبیرِ تشریق نہیں پڑھی جائے گی۔یہ تکبیر مرد متوسط بلند آواز اور عورتیں آہستہ آواز سے پڑھیں۔ (خلاصۃ الفتاویٰ، تبیین الحقائق، ہندیہ)بہت سے لوگ اس میں غفلت برتتے ہیں، یا تو پڑھتے ہی نہیں یا مرد ہو کر آہستہ پڑھ لیتے ہیں، حالاں کہ اس کا درمیانی طریقے پر بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے۔

اگر نمازِ قضا کو اِنھیں دنوں میں ادا کرے؟

        جن دنوں میں یہ تکبیر کہی جاتی ہے اگر ان دنوں کی کوئی نماز رہ گئی ہو، اب اگر اس کی قضا اسی سال کے ان ہی دنوں میں کی جائے گی تب تو یہ تکبیر کہی جائے گی، ورنہ نہیں۔ مثلاً نویں تاریخ کی نماز کی قضا اسی سال کی دسویں کو کی جائے تو تکبیر بھی نماز کے بعد کہی جائے اور اگر اس کی قضا ان دنوں کے گزرنے کے بعد یا اگلے سال کے ان ہی دنوں میں کی جائے، اسی طرح ان دنوں سے پہلے کی قضا نماز اگر ان دنوں میں پڑھے، تو یہ تکبیر نہ کہے۔(الفضائل و الاحکام للشہور والایام)

تکبیرِ تشریق نماز کے بعد کب تک ؟

        فرض نماز کے بعد فوراً تکبیرِ تشریق کہہ لینی چاہیے، لیکن اگر دعا مانگتے ہوئے کسی کو یاد آئے،تو اُسی وقت پڑھ لے، واجب ادا جائے گا۔نماز کا سلام پھیرنے کے بعد جب تک قبلے سے سینہ نہ پھیرا ہو اور نہ کوئی ایسا کام کیا ہو جس سے نماز کی بنا ممنوع ہوجاتی ہے، اس وقت تک یہ تکبیر کہی جا سکتی ہے۔ نماز کے سلام کے بعد اگر کسی نے قہقہہ لگایا یا عمداً حدث کیا، یا کلام کیا تواب یہ تکبیر نہیں کہہ سکتا۔ البتہ اگر سلام کے بعد خود بخود حدث ہوگیا ہو تو یہ تکبیر کہہ لے، کیوں کہ ان کے لیے وضو شرط نہیں ہے۔ (الہندیۃ)

اگر مسبوق نے امام کے ساتھ تکبیر کہہ دی؟

         مسبوق یعنی جس کی کوئی رکعت رہ گئی ہو وہ بھی اپنی رکعت پوری کرنے کے بعد یہ تکبیر کہے گا۔ لیکن اگر بھول کر اس نے امام کے ساتھ تکبیرِ تشریق کہہ لی تو بھی اس کی نماز درست ہوگئی۔ (دیکھیے الفضائل و الاحکام للشہور والایام)

نمازِ جمعہ کے بعد تکبیرِ تشریق

        اَیامِ تشریق میں جمعہ آجائے تو نمازِ جمعہ کے بعد بھی تکبیرِ تشریق پڑھی جائے گی۔ عقب کل فرض عیني۔  (الدر المختار مع الشامي)

نمازِ عید الاضحیٰ کے بعد تکبیرِ تشریق

        عیدالاضحی کی نماز کے بعد بالجہر تکبیرِ تشریق پڑھنا بالاتفاق ثابت اور جائز ہے، البتہ وجوب واستحباب میں اختلاف ہے، لیکن وجوب کا قول راجح ہے۔ (دیکھیے احسن الفتاویٰ)علماء نے لکھا ہے کہ نمازِ عید کے بعد بھی تکبیرِ تشریق کا وجوب معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ یہ نماز بھی جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، اگرچہ فی نفسہٖ فرض نہیں۔ اسی پر مسلمانوں کا توارث ہے۔(البحر الرائق)

ایک سے زیادہ تکبیرِ تشریق

        تکبیرِ تشریق ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ کہنا واجب ہے،اور واجب سمجھے بغیر ایک سے زیادہ مرتبہ کہنے میں حرج نہیں ہے، بلکہ مزید ثواب کی امید کی جا سکتی ہے۔ (الدر المختار مع الشامي)فقہی عبارات اور اَکابر کے فتاویٰ سے بھی مستفاد ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ تکبیرِ تشریق کہنی چاہیے،اور اس سے زائد کہنے میںکوئی حرج نہیں ہے،لیکن اس زیادتی کو سنت سمجھنامکروہ ہے۔ محض ذکر سمجھ کر پڑھنے میں مضایقہ نہیں۔(دیکھیے فتاویٰ دارالعلوم، امداد الفتاویٰ، احسن الفتاویٰ)

(مضمون نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے ڈیریکٹر ہیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here