روزے کا مقصد اور اس میں پوشیدہ اسرار، ندیم احمد انصاری
ایمان والوں پر رمضان کے روزے فرض ہیں، جس کے مختلف النوع عظیم مقاصد ہیں اور ان میں عظیم الشان اسرار و رموز بھی پوشیدہ ہیں۔ اس مضمون میں ہم انھیں میں سے بعض کو مختصراً بیان کریں گے تاکہ اس اہم ترین عبادت کی قدر دانی کا سامان ہو۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلیَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (البقرۃ: ۱۸۳)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، شاید تم متقی اور پرہیزگار بن جائو۔
’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘ کا ترجمہ یہ ہے کہ ’روزہ تم پر اس امید پر فرض کیا گیا ہے کہ تم متقی بن جائو‘۔ اس ترجمے سے یہ اشکال رفع ہوگا کہ لعلّ تردد وترجی کے لیے ہے، یعنی جب باری تعالیٰ کو تمام اشیاء کا علم ہے تو تردد کا کلمہ کیوں استعمال فرمایا؟ تو مطلب اس کا یہ ہے کہ روزہ فرض ہوا ہے تمھاری اس امید پر کہ تم متقی ہوجائو گے یعنی روزہ رکھ کر یہ امید رکھنی چاہیے، یقین نہ رکھنا چاہیے۔یہ بھی خدا کا لطف ہے، کیوں کہ اگر یہ فرمادیا جاتا کہ تم متقی ہونے کا یقین رکھو تو متقی ہونے کا ناز ہی ہوجاتا، جو بالکل خدا سے بعید کردیتا، کیوں کہ ناز ونیاز جمع نہیں ہوتے۔ (اشرف التفاسیربتغیر)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے روزے کے حکم کے ساتھ ’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘ فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اے لوگو! روزے سے نفس کو اس کی مرغوب چیزوں سے روکنے کی عادت پڑے گی تو پھر اس کی ان مرغوبات سے جو کہ شرعاً حرام ہیں، روک سکوگے اور روزے سے نفس کی قوت وشہوت میں ضعف بھی آئے گا تو (اس بات کی امید ہے کہ اب) تم متقی بن جائو گے۔ بڑی حکمت روزے میں یہی ہے کہ نفسِ سرکش کی اصلاح ہو اور شریعت کے احکام، جو نفس کو بھاری معلوم ہوتے ہیں، ان کا کرنا آسان ہوجائے اور تم متقی بن جائو۔ (گلدستۂ تفاسیر)معلوم ہوا کہ تقوے کی قوت حاصل کرنے میں روزے کو بڑا دخل ہے، کیوں کہ روزے سے اپنی خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ایک ملکہ پیدا ہوتا ہے، وہی تقوےکی بنیاد ہے۔ (معارف القرآن، تفسیرِ منیر )
روزے میں انسان کی قوتِ ملکیہ اور حیوانیہ کو کمزور اس لیے بنایا جاتا ہے کہ انسان، حیوانات اور فرشتوں کی درمیانی مخلوق ہے، اس میں ان دونوں متضاد جنسوں کے طبائع بہت لطیف اور نازک طریقے پر ودیعت کیے گئے ہیں، وہ ملکوتی اور حیوانی خصوصیات کا عجیب وغریب مجموعہ ہے، جس منصب کے لیے وہ نامزد کیا گیا ہے اور جن مقاصد کی تکمیل خدا کی طرف سے اس کے سپرد کی گئی ہےاور اس میں اس کی استعداد اور صلاحیت بھی پیدا کی گئی ہے، اس کے لیے نہ فرشتے موزوں ہیں نہ جانور۔ (ارکانِ اربعہ)
اسرارِ روزہ
روزےمیں پوشیدہ اسرار سمجھنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوگا کہ روزے کو دوسری عبادتوں پر دو وجہوں سے خاص فضیلت حاصل ہے، اول یہ کہ روزہ کھانے پینے اور جماع سے رکنے کا نام ہے لیکن یہ تمام اعمال باطنی ہیں، ان میں سے کوئی عمل ایسا نہیں ہے جو آنکھ سے نظر آئے، باقی تمام عبادات نظر آنے والی ہیں لیکن روزے کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں دیکھ سکتا، اس کا مطلب یہ ہے کہ روزہ دراصل باطن کے صبر کا نام ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ روزہ دشمنِ خدا، شیطانِ لعین پر غلبے کا دوسرا نام ہے۔ شیطان بندگانِ خدا کو بہکانے کے لیے شہوات وخواہشات کے ذرائع اختیار کرتا ہے، کھانے پینے سے ان شہوتوں کو قوت حاصل ہوتی ہے، اسی لیے آں حضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا: شیطان ابن آدم کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے، چناں چہ شیطان کی راہیں تنگ کردو اور یہ تنگی بھوک سے پیدا ہوتی ہے۔آپ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا: ’’اے عائشہ! جنت کا دروازہ کھڑکھڑاتی رہا کرو‘‘۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: کس چیز سے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بھوک سے‘‘۔
پھر روزے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف خاص طور سے اسی لیے کی گئی ہے کہ اس سے شیطان کا قلع قمع ہوتا اور اس کے چلنے کی راہیں مسدود ہوتی ہیں اور اپنے دشمن کی بیخ کنی کے لیے اللہ تعالیٰ خاص مدد و نصرت سے بندے کو نوازا کرتے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے:
إِنْ تَنْصُرُوا اللّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ۔(محمد:۷)
اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے قدم جما دے گا۔(احیاء العلوم الدین)
فرشتوں کی محبت حاصل کرنے کا نسخہ
فرشتے جو کہ اللہ تعالیٰ کی فرماں بردار مخلوق ہیں ہمارے لیے بہتر ہے کہ وہ ہم سب سے محبت کریں لیکن وہ اللہ کے فرماں بردار بندوں ہی سے محبت کرتے ہیں، اس لیے ان کی محبت حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ طاعات کی پابندی کی جائے اور گناہوں سے احتراز کیا جائے۔جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ روزوں سے جس قدر بہمیت کا ہیجان گھٹتا ہے، اسی قدر گناہ معاف ہوتے ہیں اور روزوں کی وجہ سے انسان کے اندر فرشتوں سے مشابہت پیدا ہوتی ہےاور اس مشابہت کی وجہ سے فرشتے، روزے دار سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ (حجۃ اللہ البالغۃ)